مدرسہ تحفیظ القرآن الکریم چکیسر

مدرسہ تحفیظ القرآن الکریم چکیسر


- ضلعی سطح پر اول اور دوم پوزیشن لینے کا اعزاز
vector-bg

بسم اللہ الرحمن الرحیم

abt-img2.jpeg

دینی مدارس کی اہمیت

قرآن وحدیث کی تعلیمات کے بغیر کسی اسلامی معاشرہ کی بقاءاور اس کے قیام کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اسلامی تعلیمات ہی پر کسی اسلامی معاشرہ کی بنیاد اور داغ بیل ڈالی جا سکتی ہے۔ قرآن و حدیث اسلامی تعلیمات کا منبع ہیں اور دینی مدارس کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے ماہرین ، قرآن و حدیث پر گہرینگاہ رکھنے والے علماءاور علوم اسلامیہ میں دسترس رکھنے والے رجال کار پیدا کئے جائیں۔ جو آگے مسلمان معاشرہ کا اسلام سے ناطہ جوڑنے ، مسلمانوں میں اسلام کی بنیادی اور ضروری تعلیم عام کرنے اور اسلامی تہذیب و تمدن کی ابدیصداقت کو اجاگر کرنے کا فریضہ انجام دیں ۔برصغیر میں دینی روایات اور اسلامی اقدار کے تحفظ و سر بلندی کے لئے علماءحق نے جو مجاہدانہ و سرفروشانہ کردار ادا کیا ہے، وہ تاریخ کا ناقابل فراموش باب ہے۔

مشیت خداوندی نے بر صغیر کے اہل علم کے لئے یہ سعادت مقدر کی کہ انہوں نے ماٰثر اسلامیہ کی حفاظت کے لئے دیگر عالم اسلام کے طریق سے ہٹ کر مدارس دینیہ کے قیام و استحکام کا بے نظیر کارنامہ سر انجام دیا۔مدارس دینیہ کی یہ عظیم طاقت مختلف حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اکا بر علماءدیوبند نے مسلمانانِ پاکستان کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے‘ مملکت ِ خداداد پاکستان میں دینی مدارس کے تحفظ و استحکام اور باہمی ربط کو مضبوط بنانے اورمدارس کو منظم کرنے کے لئے ایک تنظیم کی ضرورت محسوس کی ۔ 14-15ربیع الثانی 1379ھ مطابق 18-19اکتوبر 1959 میں باقاعدہ طور پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نام سے ایک ہمہ گیر تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ اس بورڈ کا مقصداہل علم کے درمیان توافق و رابطہ‘ نظام تعلیم و امتحانات میں یکجہتی‘جامع نصاب کی ترتیب شہادات کے اجراء اور جدید علوم و فنون اور عصری تقاضوں کے مطابق حسب ضرورت اب تک جو اقدامات کئے ہیں وہ بلاشبہ تاریخ ساز ہیں۔ اور ملک کا سب سے بڑا دینی تعلیمی بورڈ ہے۔ جس کے تحت بیس ہزار پانچ سو ساٹھ)20560( مدارس وجامعات کام کر رہے ہیں۔ان مدارس میں ایک لاکھ اکیس ہزار آٹھ سو اناسی)121879(اساتذہ کرام خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جبکہ پچیس لاکھ دس ہزار چار سو بیاسی)2510482(طلبہ /طالبات زیر تعلیم ہیں۔وفاق المدارس سے اب تک فارغ التحصیل ہونے والے علماء کی تعدادایک لاکھ ستائیس ہزار دو)127002(، عالمات کی تعدادایک لاکھ بہتر ہزار نو سو پچاس)172950( اور حفاظ کی تعدادنولاکھ نواسی ہزار چھ سو انسٹھ)989659( ہے۔ بہرحال....دینی مدارس کے خدمات قابل تحسین اورقابل رشک ہیں. ان کایہ عظیم کردارکسی پرمخفی نہیں ہیں. مدرسہ تحفیظ القرآن الکریم چکیسر بھی اسی گلشن کےپھولوں میں سے ایک پھول ہے-

چکیسرکامختصرتعارف

ضلع شانگلہ کے مشہور ومعروف گاؤں چکیسرسوات کے مشرقی جانب101کیلومیٹرفاصلے پرواقع ہے ۔چکیسرکانام سنتے ہی ذہن میں ایک خوشگوار تأثر قائم ہوتا ہے دینی حلقوں میں چکیسر کسی تعارف کا محتاج نہیں یہاں کی تاریخ علمی دنیا کے ایسے ہیروں سے منور ہے جنہوں نے علم وفضل کے دریا بہا کر اطراف عالم کو سیراب کرکے تشنگان علم کے علمی پیاس کو بجھایا۔للہیت سے بھرپور ان خدا ترس اپنے وقت کے صوفیائ ،زھد وتقوی کے پہاڑ علمائ ربانیین ہی کی وجہ سے چکیسر کانام علمی حلقوں میں بڑے آدب واحترام سے یاد کیا جاتا ہے۔انہی نفوس قدسیہ میں سے جامع المعقولات والمنقولات شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد ادریس رحمہ اللہ بھی تھے۔حضرت درس وتدریس کے میدان کے شہسوار ،تصوف وتزکیہ کے ایسے مراتب میں کہ دیکھ کر خدا یاد آجائے ۔پشاور،شیرگڑھ،شاہ منصور،چارباٰغ ،چکیسر اور دیگر مختلف شہروں میں ہزاروں تشنگان علم ومعرفت کو سیراب فرمایا ۔

سرزمین چکیسر پرمدرسہ ہذا کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

آج کے مادہ پرستانہ ماحول میں جب کہ ہرکوئی مادی فلاح کو ذریعہ آرائش سمھجتاہے ،علوم دنیاوی کووہ تقدم حاصل ہوا جوکہ ماضی میں علوم دینیہ کوبھی شایدنہیں دیاگیا۔آج چاروں طرف نظردوڑائیں لڑکوں کیلئے توکیابلکہ لڑکیوں کیلئے بھی سکول موجود ہیں ۔ان گنت مدارس کھولے گئے ہیں ان میں مزید توسیع کی جارہی ہے ۔نت نئے سکولوں کے نقشے ڈالے جارہی ہیں ساتھ ہیEnglish Medium سکولوں نے بھی نوجوان طبقے کواپنے اندر جذب کرنے کاعمل جاری رکھاہے۔سراسرسوچ اس بات کیلئے ہے کہ چاہئے کچھ بھی ہو ،انگریزیت ہماری زندگیوں میں اپنے پورے جوبن پردکھائے دے، اس کیلئے ہمیں سب کچھ تیاگ دینے میں کوئی عار اورکوئی شرم محسوس نہیں ہوتی دینی علوم کا کس کوخیال باقی رہاہے ۔ماضی کے تاریخ کے اوارق پرنظردوڑائیں ۔کہ ایک زمانہ تھاکہ چکیسر کانام دور دراز تک پھیلاہواتھا۔پاکستان اورافغانستان کے مختلف شہروں کی کثیرتعدادمیں طلبہ کرام علم منطق جیسے علوم کی حصول کیلئے یہاں آکرپڑے رہتے تھے اور حصول علم کیلئے اپنی پیاس بجھاتے ۔غالباہی وہ زمانہ تھاجب انگریزی تعلیم نے ہمار ے ذہنوں پراس قدرغلبہ نہیں پایاتھا۔جوجوانگریز ی ادارے کھولتے گئے رجحان طبع میں تبدیلی آتی گئی یہاں تک کہ وہ دور بھی آیاجب دینی علوم طاق نسیاں میں رکھے گئے اور سراسر چکیسر جیسے لوگوں کی توجہ انگریزی تعلیم کہ طرف مبذول ہوگئی۔

مقامی علماءکرام کیوں اس طرف توجہ نہیں دیتے تھے

ضلع شانگلہ کے مشہور ومعروف گاؤں چکیسرسوات کے مشرقی جانب101کیلومیٹرفاصلے پرواقع ہے ۔چکیسرکانام سنتے ہی ذہن میں ایک خوشگوار تأثر قائم ہوتا ہے دینی حلقوں میں چکیسر کسی تعارف کا محتاج نہیں یہاں کی تاریخ علمی دنیا کے ایسے ہیروں سے منور ہے جنہوں نے علم وفضل کے دریا بہا کر اطراف عالم کو سیراب کرکے تشنگان علم کے علمی پیاس کو بجھایا۔للہیت سے بھرپور ان خدا ترس اپنے وقت کے صوفیائ ،زھد وتقوی کے پہاڑ علمائ ربانیین ہی کی وجہ سے چکیسر کانام علمی حلقوں میں بڑے آدب واحترام سے یاد کیا جاتا ہے۔انہی نفوس قدسیہ میں سے جامع المعقولات والمنقولات شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد ادریس رحمہ اللہ بھی تھے۔حضرت درس وتدریس کے میدان کے شہسوار ،تصوف وتزکیہ کے ایسے مراتب میں کہ دیکھ کر خدا یاد آجائے ۔پشاور،شیرگڑھ،شاہ منصور،چارباٰغ ،چکیسر اور دیگر مختلف شہروں میں ہزاروںجہاں تک مقامی علماءکرام کی بات ہے انہوں نے تدریسی علوم میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھی ۔چکیسر کی علمی اہمیت انہی کی دم قدم سے ہے۔آج بھی جب دینی علوم کاتذکرہ ہوتاہے توچکیسر اور مارتونگ کانام ضرور صف اول میں آتاہے ،ظاہر بات ہے یہ نام ازخود درنہیںآیابلکہ اس کے پیچھے ضرور باالضرور کوئی عمل کارفرماہواہوگا۔جوصرف یہاں کے علماٰءکرام کی مساعی ہیں۔مقامی اکابر علماءکرام کے علمی کارنامے اپنی جگہ لائق صد تحسین آفرین ہے ہیں جن پر انگلی اٹھانے کی جگہ ہی نہیں البتہ یہ بات قابل غور طلب ضرور ہے کہ عوام الناس کیلئے قرآنی تعلیم جیسے اہم فریضے سے اغماض برتنے کے اسباب وعلل کیا ہوسکتے تھے۔ مقامی علماءکرام اپنی تدریسی مشاغل میں ایسی منہمک رہے کہ انہیں فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ اس اہم فریضہ کی طرف کچھ نہ کچھ توجہ دیتے۔عوام کی بات تو اور ہے ۔مقامی نامور علماءکرام میں سے شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا محمد ادریس(رحمہ اللہ)کمران والی سوات کے دور حکومت سے دارالعلوم اسلامیہ چارباغ میں درس وتدریس اورصدر دارالعلوم کی حیثیت سے دیگر امور کے فرائض میںمصروف عمل تھے۔ دوسری جانب حضرت مولانا عنایت اللہ (رحمہ اللہ ا)پنا تدریسی سلسلہ جوکہ اپنے والد ماجدحضرت علامہ مولانا محمد نذیر چکیسری ؒکے دورسے چلا آرہا تھاباالآخر چھوڑ کر چند سال درس و تدریس کیلئے شاہ منصور(ضلع صوابی)تشریف لے گئے۔ چکیسر جیسے اہم ترین علمی مرکز کا علمی تشخص اس سے ضرور متاثر ہوا......البتہ انہی علمائے کرام کی کوئی دعا شاید اللہ رب العزت کے دربار میں شرف قبولیت حاصل کرگئی ۔ تشنگان علم ومعرفت کو سیراب فرمایا

تاسیس مدرسہ

بالآخر1989ئ میں شیخ الحدیث علامہ محمدادریس رحمہ اللہ کے فرزندمولاناظفراحمدفاروقی مدظلہ نے'' مدرسہ تحفیظ القرآن الکریم ''کے نام سے ایک دینی مدرسہ کرایہ کے ایک چھوٹے سے محدود مکان میں قرآن کریم کی تعلیم کیلئے کھولا۔مدرسہ کی مستقل عمارت نہ ہونے کی بنائ پر ابتدائ ہی میں سخت مشکلات کاسامناکرناپڑا،کیونکہ جگہ محدود تھی ،اور طلبہ کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا......بہرحال مدرسہ تحفیظ القرآن الکریم کاتعارف نامکمل رہے گا،اگرچکیسرکاقوم'' غورہ خیل ''کے نیک سیرت اورمعززخاتون (اللہ تعالی اسکی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلی مراتب سے نوازے،آمین )کاذکرنہ کیاجائے،جس نے اپنے والد مرحوم کے ایصال ثواب کیلئے صدقہ جاریہ کے طور پر اپنی جائداد میں سے کچھ زمین تعمیر مدرسہ کیلئے وقف کردی،توحضرت مہتمم صاحب نے بخوشی اس کوقبول فرمایا ......اس وقت مالی وسائل چونکہ اجازت نہیں دیتی تھی ،مگرپھربھی محض اللہ رب العزت پر توکل کرکے ۰۲ دسمبر 1991ئ میں حضرت مولاناسعیدالرحمن (خطیب صاحب)مدظلہ اور حضرت مولاناقاری عبدالباعث صدیقی ؒ نے مدرسے کا سنگ بنیاد رکھا ۔اور اس کے ساتھ تعمیر کاکام رفتہ برفتہ شروع ہوا،اور یوں قطرہ قطرہ دریا کی صورت میں ایک دینی ادارہ '' مدرسہ تحفیظ القرآن الکریم ''کی تعمیرمحض رب کریم کے فضل وعنایت سے شروع ہوگئی-

اغراض ومقاصد

(1)مدرسے کااہم مقصد ایسے حفاظ ،قراء،علماءاور اسلام کے داعی تیار کرناہے جوباکمال علم کے ساتھ تقویٰ،للہیت اور اخلاص کے زیورسے آراستہ ہوں،جن کامقصد اساسی دین اسلام کی حفاظت ،اس کی نشرواشاعت اور امت مسلمہ کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی ہو ۔
(2)نئی نسل کومذہب سے قریب کرنااوردینی اقداراور سلامی آ داب وثقافت سے روشناس کرنا۔
(3)خدمت دین کی غرض سے طلبہ میں موجودہ دور کے مطابق لکھنے اور بولنے کی ایسی مہارت پیداکی جائے جس سے سنے والوں کے دل میں ان کی بات کی قدرومنزلت ہو،اور دینی وعصری علوم کویکجاکرناتاکہ طلباءمعاشرے میں فعال کردار ادا کرنے کے قابل ہو۔
(4)عبادات ،معاملات اخلاق وآدب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ کرام ؓ سکھانا۔
(5)قران وسنت کی تعلیمات کے ذریعے معاشرے کی تطہیرکرنا۔
(6)تخلیقی اور مثبت ذہن تیار کرناتاکہ باشعور اور ذمہ دار افراد تیار کئے جائیں جوملی تشخص کوبرقراررکھ سکے۔
(7)قرآن وسنت کی تعلیم کوبطورتعلیم وتعلم کے ذریعے عورتوں میں بھی مردوں کی طرح عام کرنا،اس لئے کہ وہ ہمارے آئندہ نسل کیلئے ابتدائی مدرسہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
(8)مسافر طلباءکرام کے قیام وطعام اور طبی سہولیات وغیرہ مدرسہ ہذا کی طرف سے پوری کرنا۔
(9)مدرسہ میں قرآن پاک کی تعلیم کیساتھ طلبائ کی پوری طرح ذہنی ،اخلاقی،معاشرتی اورروحانی تربیت کرنا۔
(10)مختلف مساجد میں ایسے حلقے(شاخیں ،پرانچ)قائم کرناجہاں مسلمان بچے اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن پاک پڑھنے پر عبورحاصل کرکے صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن پاک حفظ کرلیں ۔
(11)ان تمام طلبہ کی ایسی تربیت کرنا جس سے دوسرے لوگ متاثرہوکر قرآن پاک جیسی عظیم کتاب کی تعلیم کے ساتھ محبت کرنے لگیں۔

شعبہ قاعدہ وناظرہ۔

مدرسہ ہذا قواعد تجوید کے مطابق قرآن کریم پڑھانے کے حوالے سے امتیازی حیثیت کا حامل ادارہ ہے۔مہتمم مدرسہ مولاناظفراحمد فاروقی دامت برکاتہم العالیہ کا مرتب کردہ قاعدہ ''زینت القرآن '' انتہائی اہتمام اور خصوصی توجہ سے پڑھایا جاتا ہے مذکورہ قاعدہ ''دریا بکوز ''کا مصداق ہے ،جس میں علم تجوید کے اہم اور بنیادی قواعد آسان انداز میں جمع کئے گئے ہیں۔ قاعدہ ھذا پڑھنے کے بعدبچہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ خود تجوید کے قواعد کے مطابق قرآن کریم پڑھ سکے۔چونکہ یہ مرحلہ انتہائی محنت طلب اور توجہ کا محتاج ہوتا ہے اسلئے ہر ہر بچے پرخصوصی توجہ دی جاتی ہے۔قاعدہ پڑھنے کے بعد بچہ پورا قرآن پاک خود پڑھ کر استاد کو سناتا ہے اس دوران بچوں کو مسنون دعائیں اور نماز یاد کرانے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔

شعبہ حفظ قرآن۔

کلام الہی کاحفظ ہوجانااس مقدس کتاب کاکھلامعجزہ ہے جوامت محمدیہ ؑکے ساتھ مخصوص ہے ۔مدرسہ ہذا کے اس شعبے میں صرف انہی طلبہ کوداخلہ دیاجاتا ہے جوتجوید کے قواعد کےمطابق ناظرہ قرآن کریم مکمل کرچکے ہوں۔مدرسہ کے شعبہ حفظ میں ہرسال نئے داخلوں کیلئے طلبہ کی ایک بڑی تعداد رجو ع کرتی ہے۔صرف معیار پر پورااترنے والے طلبہ کوہی داخلہ دیاجاتاہے۔اور پھربچہ ماہراور مشاق قرائ کے زیرتربیت رہ کر رب کریم کے عظیم الشان کلام کواپنے سینے میں محفوظ کرتاہے ۔طلبہ کے منزل کی پختگی پربھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔نیزشعبہ قاعدہ،ناظرہ اور حفظ کے طلبہ کو اردو ،ریاضی ،انگریزی اورخطاطی کی بنیادی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔

شعبہ تجوید۔

ادارہ ہذا میں حفاظ کویک سالہ تجوید کورس کرواجاتاہے۔ماہرین فن قرا ئ اکرام ایک سال میں علم تجوید کی بنیا دی اور اہم کتابیں پڑھاکربچوں سے پوراقرآن کریم حدر کے انداز میں سنتے ہیں اور قرآن پاک کوترتیل کیساتھ پڑھنے کی مشق کی جاتی ہے۔

شعبہ درس نظامی للبنین والبنات۔

آج کے اس پرفتن دور میں جہاں ہرطرف فتنوں کا ایک سیلاب موجود ہے مغربی طرز تعلیم اور دنیاوی عہدوں کاحصول ہی منتہائے مقصود قرارپایاہے،ایسے میں کچھ اللہ والے بندے بھی ہیں جنہوں نے علوم نبوت کی تعلیم وتعلم کواپنا اورڑھنانچونابنایاہواہے ۔مدارس دینیہ اسی مقصد کیلئے قائم ودائم ہیں ،اللحمدللہ مدرسہ ہذا بھی ''صفہ ''کے لائن کی ایک کڑی ہے۔یہاں شعبہ درس نظامی للبنین والبنات قائم ہیں, یعنی لڑکوں اور لڑکیوں کوالگ الگ عالم کورس کروایاجاتاہے۔بنین (لڑکوں)کیلئے فی الحال وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نصاب کیمطابق درجہ خامسہ تک کی ترتیب ہے،جبکہ بنات کاشعبہ الگ ہے جس کیلئے ایک الگ عمارت کرایہ پرلی گئی ہے ،مستقبل میں شعبہ بنات کیلئے ایک مستقل عمار ت تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔(اللہ بخیروعافیت اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کاانتظام فرماے ،آمین)۔ بنات کیلئے درجہ ذیل شعبہ جات قائم کئے گئے ہیں ۔(1)شعبہ قاعدہ وناظرہ(2)شعبہ حفظ ودوَر(3)ترجمہ وتفسیر(4)درس نظامی، ٭شعبہ درس نظامی : وفاق المدارس العربیہ کالڑکیوں کیلئے مرتب کردہ چھ سالہ عالمہ کورس کانصاب ہے ،جسمیں لڑکیوں کو خصوصی اہتمام وتوجہ اور محنت کے ساتھ عالمہ کورس کروایاجاتاہے۔ ٭شعبہ ترجمہ وتفسیر : جن لڑکیوں یامعمر خواتین کیلئے مختلف وجوہ کی بناءپرعالمہ کورس میں داخلہ لینا ممکن نہیں ہوتاان کیلئے جامعہ کی طرف سے قرآن کریم کے ترجمہ وتفسیر جدید فقہی مسائل کیساتھ کااہتمام کیاہے۔تاکہ وہ بھی اس بحر ے کنارے سے اپنے اپنے ذوق کے مطابق کچھ نہ کچھ حصہ پالیں ۔الحمدللہ بنات کے ہرشعبے میں عوام الناس کا رجوع بہت زیادہ ہے ،دین اور دینی علوم کیطرف لوگوں کایہ رجحا ن پو رے علاقے کیلئے انتہائی خوش آئندہ ہے۔

ہدایات برائے طلباء۔

(1) ہر مدرس اس بات کا پابند ہوگا کہ صرف ان طلبہ کو گھر جانے کی اجازت دے جن کے گھر جانے کی باری ہو ۔
(2) چار ہفتے پورا ہونے کے بعد طالب علم گھر جانے کا مجاز ہوگا۔
(3) گھر جانے والے طلبہ گھر جانے سے ایک دن پہلے اپنے استاد صاحب کو زبانی اطلاع دیکر مطلع کریں۔ تاکہ بعد میں پریشانی نہ ہو ۔
(4) جو طلبہ ہر جمعہ کو گھر جاتے ہیں۔ انکی واپسی جمعہ کے روز عصر سے پہلے پہلے لازمی ہوگی۔
(5)گھر جانے والے طلبہ جمعرات کے روزظہر اور عصر کے بعد جائینگے ۔ اور دور دراز علاقوں والے یا زیادہ وقت گزارنے والے طلبہ صبح چائے کے بعد یا 11 بجے کے بعد اجازت لیکر جاسکتے ہیں ۔واپسی بروز ہفتہ یا اتوار جو بھی دن یا وقت مقرر ہو 8یا 9بجے تک لازمی ہوگی ۔ تاخیر پر جرمانہ یا سزا دیجائیگی۔
(6) جو طلبہ بیمار ہوجائے ۔ اپنے استاد کے اجازت کے بغیر کلاس سے چھٹی نہ کریں۔
(7) بیمار طلبہ کھانا کھانے کے اوقات میں دستر خوان پر حاضر ہوکر کھانا کھائینگے۔ کلاس یا کمروں میں کھانا لے جانا ممنوع ہوگا۔
(8) جمعہ کے روز سکول جانے والے طلبہ پابندی کیساتھ سکول جائینگے ورنہ جرمانہ یا سزا دی جائے گی۔
(9) جمعہ کے علاوہ دوسرے دنوں میں کپڑے دھونے کی جازت نہیں ہوگی۔
(10) جمعرات کے روز عصر سے لیکر جمعہ کے دن 12 تک تمام طلبہ کو کپڑے دھونا چاہیئے۔ جمعہ کے دن 12 بجے کے بعد کپڑے دھونے اور نہانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
(11) کرکٹ کھیلنا، انگریزی با ل رکھنا ، کالی ٹوپی اور موبائیل کا استعمال ، ساتھیوں کے چپل اور جوتے بغیر اجازت کے استعمال کرنا، دیوار ، دروازوں ، کھڑکیوں اور پٹیوں پر خط لکھنا ممنوع ہوگا۔ لہذا خلاف ورزی کرنے والوں سے جرمانہ لیا جائے گا۔
(12) جس کی چھٹی ہوجائے وہی طلبہ دوسرے کلاسوں میں نہ جائے، جب تک دوسری کلاس کی چھٹی نہ ہوجائے۔
(13) کوئی طالب علم کلاس یا کمرے کا دروازہ رات کے علاوہ اندر سے بند نہیں کریگا۔
(14) چھوٹے طلبہ بڑے طلبہ کے کمروں میں اور بڑے عمر کے طلبہ چھوٹے طلبہ کے کمروں میں نہیں جائینگے۔اور عصر کے بعد (بارش کے علاوہ )کمروں میں نہ رہے۔
(15) کمروں میں رات کو زیرو بلب کھلا رکھنا لازمی ہوگا۔
(16) جو طلبہ اپنی مرضی سے کلاس تبدیل کرنا چاہے وہ مبلغ200 روپیہ دفتر میں جمع کرکے کلاس تبدیل کرسکتا ہے۔
(17) جس کمرے میںٍ کسی کا بسترہ پھاڑا ہوا پایاگیاتو اس طالب علم سے جرمانہ لیا جائے گا۔

پڑھائی کے متعلق ہدایات۔

(1) حفظ کے ہر طالب علم کیساتھ تعلیمی جائزے کا کارڈ لازمی ہونا چاہیے۔
(2) حفظ اور ناظرہ کے تمام طلبہ کیلئے سب سے اہمیت کا حامل تلفظ ہوگا۔ تلفظ میں کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہیں کی جائیگی۔
(3) اگر کسی طالب علم کے تلفظ میں جو بھی کمزری پائی گئی ۔ تو یہ متعلقہ استاد کی نا اھلی سمجھی جائے گی۔کہ وہ اپنے فرائض میں کوتاہی کا ارتکاب کرتا ہے âکیونکہ مدرسہ ھذ یا اس کے کسی شاخ میں ایسے کوئی طالب علم کو حفظ یا ناظرہ میں داخلہ نہیں دیا جاتا جسکا تلفظ درست نہ ہواورقواعد تجوید سے ناواقف ہو á۔
(4) حفظ کیلئے تاج کمپنی کے قرآن پاک 16 یا 18 سطروں والے کا ہونا لازمی ہے۔
(5) پارہ شروع ہوتے وقت پوری تاریخ لکھا جائے۔ بعد میں صرف تاریخ اور دن اخر تک لکھنا چاہیے۔
(6) طالب علم سے ہر روز سبق پختگی اور قاعدے کے مطابق سننا چاہیئے۔
(7) سبقی پارہ ختم ہونے سے 2 دن پہلے مھتمم صاحب کو اطلاع دینی چاہیے۔تاکہ امتحان بر وقت لیا جاسکے۔اور پارہ ختم ہوتے ہی اُسی دن مھتمم صاحب یا متعلقہ ذمہ دار کے پاس امتحان کیلئے بھیجنا چاہیئے۔
(8) حفظ اور نا ظرہ کے طلبہ سے جب بھی کوئی چاہے امتحان لے سکتا ہے۔
(9) مدرسہ کے امتحانات کیلئے سبق بند کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ جب چاہے ایک یا دو دن پہلے اطلاع دیکر امتحان لیا جائےگا۔
(10) امتحان کے نتائج کمزور ہونے کی صورت میں متعلقہ کلاس کے استاد کے ایک ماہ تنخواہ روک لی جائیگی۔ جوکہ سال کے آخر میںدیا جائے گا۔
(11) کسی استاد کو یہ اجازت نہ ہوگی کہ وہ مھتمم صاحب کے مشورے کے بغیر کسی طالب علم کا سبق بند کرے یا بند شدہ سبق کھولدے۔
(12) جو طلبہ غیر حاضری کے عادی بن جاتے ہیں۔ انکے غیر حاضری کی رپورٹ فورا مھتمم صاحب کو دینی چاہیئے۔ تاکہ مناسب حل نکالاجاسکے اور ایسے طلبہ کو سزا دینے سے گریز کرنا چاہیئے۔تاکہ مدرسہ اور استاد کی بد نامی نہ ہو۔
(13) جو طالب علم پڑھائی میں کمزور ہو تو مھتمم صاحب کو وقتا فوقتا باخبر رکھنا چاہیئے۔
(14) حفظ کے طلبہ سے چھ پاروں تک کم از کم دو،دو پارے دس پاروں تک تین،تین پارے بیس پاروں تک چار،چار پارے اور بیس پاروں کے بعد آخر تک کم ازکم پانچ پانچ پارے منزل روزانہ سننا لازمی ہوگا۔
(15) طلبہ آپس میں منزل سنانے کے بعد استاد خود تحقیقات کرکے تسلی کرے کہ کسی نے منزل میں چوری تو نہیں کی۔
(16) منزل کیلئے کوئی خاص وقت کی پابندی نہیں ہوگی ۔جب بھی فرصت ملے طالب علم سے منزل پوری کرنی چاہیے۔
(17) دور کے طلبہ جب پانچ پارے مکمل کریں۔تو اسی روز مھتمم صاحب کو امتحان دینا چاہئیے۔ان پاروں کے علاوہ تمام دورشدہ پاروں مےں بھی امتحان لیاجاسکتا ہے۔

نظم ونسق مدرسہ۔

جامعہ کا نظم ونسق حضرت مہتمم صاحب اور مجلس شوری (جس میں اساتذہ کرام اور علاقہ کے چیدہ چیدہ لوگ شامل ہیں)کے باہمی شورائی نظام کے مطابق چلتا ہے۔مالی امور کی شفافیت اور آڈٹ کا خصوصی انتظام موجود ہے جس کیلئے ناظم مالیات اور ان کا معاون عملہ خدمات سرانجام دیتا ہے۔آمدن وخرچ کا باقاعدہ حساب رکھا جاتا ہے۔تعمیراتی امور حضرت مہتمم صاحب بذات خود دیکھتے ہے اور اس کا انتظام فرماتے ہیں۔تعلیمی امور پر خصوصی توجہ دیجاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ علاقہ بھر میں مدرسہ ھذا کا نظم ایک معیار کی حیثیت رکھتا ہے،والحمدللہ علی ذلک ......ہمہ وقت نگرانی کیلئے ناظم تعلیمات و نگران اعلی اورانکے معاوینین اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔

دارالاقامہ(ہاسٹل)۔

اللہ کے فضل وکرم واحسان سے دور دراز کے طلبہ علوم نبوت ہرسال مدرسہ میں داخلے کیلئے تشریف لاتے ہیں۔اساتذہ کرام اور ان طلبہ کی رہائش کیلئے سہولیات سے آراستہ مناسب دارالاقامہ(ہاسٹل)موجود ہے۔جس میں اساتذہ کرام کی نگرانی میں طلبہ رہائش پزیر ہے ۔

مطبخ ومطعم۔

مدرسہ ہذا طلبہ کیلئے مفت قیام وطعام کاانتظام کرتاہے ۔اس ضمن میں نناظم مطبخ کی نگرانی میں طلبہ کیلئے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق کھانے ،پینے کاانتظام کیاجاتاہے۔کھانے کی تیاری صفائی وغیرہ دیگرخدمات کیلئے ایک خادم مامور کیاگیاہے،جوہمہ وقت عبادت سمجھ کرطلبہ کی خدمت انجام دیتاہے۔

شعبہ صحت۔

مدرسہ طلبہ کو مفت علاج ومعالجہ کی سہولت بھی فراہم کرتاہے،مخیرحضرات کی تعاون سے طلبہ کاہرقسم کاعلاج ومعالجہ کیاجاتاہے ۔

دارالافتاء۔

(فسئلوااہل الذکران کنتم لاتعلمون) قرآنی حکم کی عملی تفسیرکیلئے مدرسہ میں ''دارالافتاء'' کاقیام عمل میں لایاگیاہے ۔جسمیں ہمہ وقت مفتیاءاکرام لوگوں کے مسائل کے شرعی حل کیلئے موجود ہوتے ہیں ،عوام الناس کوان کے عقائد ،عبادات ،معاشرت اوردیگرمالی معاملات میں پیش آمدہ ہرقسم مسائل کاشریعت کی روشنی میں راہنمائی کی جاتی ہے ۔ زبانی یاتحریری طورپر اپنے مسائل کے شرعی حل کیلئے رابطہ کرسکتے ہیں ۔

مروجہ تجارتی خرابیاں اور انکا شرعی حل۔

عوام ا لناس اور خصوصا تاجر حضرات کی آگاہی کیلئے دارالافتاہ کی طرف سے ایک مختصراور جامع پروگرام بنام ''مروجہ تجارتی خرابیاں اور انکا شرعی حل ''ترتیب دیاگیاہے تجارت سے منسلکہ تمام افراد کو اس پروگرام میں مدعوں کیاجاتاہے ۔تجارت کے فضائل ، بنیادی احکام اور مروجہ تجارتی خرابیوں سے تاجرحضرات کو آگاہ کرکے انکا شرعی حل پیش کرنے کیلئے روزانہ ایک گھنٹے پرمشتمل لیکچر دیاجاتاہے۔

مدرسہ کی شاخیں(برانچیں)۔

مدرسہ تحفیظ القرآن الکریم چکیسرعلوم نبوت عام کرنے کے ہمہ گیرمنصوبے رکھتاہے ،اس ضمن میں مختلف علاقوں میں مدرسہ کی شاخیں قائم کی گئی ہیں،جومدرسہ ھذاکے زیرنگرانی تعلیمی عمل کوآگے بڑھاتے ہیں ۔

vector-bg